’’جبریل اُڈاری‘‘ اور تخلیقی ترجمہ نگاری ۔۔۔ جلیل عالی

’’جبریل اُڈاری‘‘ اور تخلیقی ترجمہ نگاری

شعر و ادب کے ایسے مترجم تو بہت مل جائیں گے جو کسی ادارے کی فرمائش پر یا اپنی تخلیقی سرگرمیوں کے درمیانی وقفوں کے دوران تراجم کا کام نمٹانے بیٹھ جاتے ہیں۔مگر ایسے ترجمہ نگار کم کم پائے جاتے ہیں جو کسی غیر زبان کیے تخلیق کار کی تخلیقات سے تحریک پا کرایک اندرونی انگیخت سے ان کا ترجمہ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیںاور پھر اپنی تمام تر تخلیقی و اکتسابی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنی زبان میں منتقل کرتے ہیں۔دونوں طرح کے مترجمین کا کام خود بتاتا ہے کہ’’ فرق صاف ظاہر ہے ‘‘۔اسیر عابد کے قلم سے نکلے ہوئے ’’دیوانِ غالب ‘‘ اور ’’ بالِ جبریل‘‘ کے منظوم پنجابی تراجم کے مطالعے سے احساس ہوتا ہے کہ کہ قدرت نے اس کو پیدا ہی اس کام کے لیے کیا تھا۔اس نے کسی کی فرمائش پر ان کاموں کا بیڑا نہیں اٹھایابلکہ اپنے ذوق کی تسکین کے لیے ایک عاشقانہ لگن کے ساتھ یہ کارنامے سر انجام دیے ہیں۔اس نے پہلے غالب کو ایک عرصے تک بار بار اتنا ڈوب کر پڑھا کہ غالب اپنے تمام تر فکر و احساس کے ساتھ اس کی ذات کا حصہ بن گیا۔ یہ اسی استغراق کا ثمر ہے کہ دیوانِ غالب (اردو)کا پنجابی ترجمہ پنجابی زبان میں غالب کی حقیقی باز آفرینی کا درجہ حاصل کر گیا ہے۔
دیوانِ غالب کے منطوم ترجمے سے فارغ ہو کر اسیر عابد نے اسی والہانہ ارتکاز سے اقبال کے اردو شعری مجموعے ’’بالِ جبریل‘‘ کو اپنی خصوصی توجہ کا مرکز بنایا اور اس روحانی چلّہ کشی کا پھل ’’جبریل اُڈاری‘‘ کی صورت میں سامنے آیا۔جس طرح ’ دیوانِ غالب‘‘ کا ترجمہ اسیر عابد کی اندرونی تحریک کی دین ہے اسی طرح’’ بالِ جبریل‘‘ کا ترجمہ بھی اس کی تخلیقی اپج کا اپنا انتخاب ہے۔’’دیوانِ غالب ‘‘کی اشاعت کا اعزاز مجلسِ ترقیِ ادب لاہور کے حصّے مین آیا جب کہ ’’جبریل اُڈاری‘‘کی اشاعت کا سہرا اقبال اکادمی پاکستان لاہور کے سر بندھا۔ یہ حقیقت ہے کہ اسیر عابد نے یہ کارنامے کسی معاوضے کے لالچ میں ان اداروں کی طرف سے تفویضی منصوبوںکے طور پر سر انجام نہیں دیے بلکہ اس کے اپنے ادبی و تخلیقی ذوق کی تحریک سے ان کی تکمیل ہوئی۔اسی طرح’’ قصیدہ بردہ شریف‘‘کامنظوم ترجمہ بھی اس کی روحانی شیفتگی کا آئینہ دار ہے۔
غالب اور اقبال دونوں کا شمار اردو کے عظیم شاعروں میں ہوتا ہے۔ دونوں کا کلام اپنے اپنے جہانِ معنی اور اسلوبِ اظہار کے اعتبار سے بے مثال ہے۔ لہٰذا دونوں کے تراجم کے اپنے اپنے مطالبے اور اپنی اپنی مشکلات ہیں۔اور پھر شاعری کا منصفانہ شعری ترجمہ مشکلات میں اور بھی اضافہ کر دیتا ہے۔ جہاں تک کلامِ غالب کا تعلق ہے اس کے ترجمے مین غالب کے تفلسف، دانش و حکمت، خیال آفرینی، معنوی تہ داری، لطافتِ احساس،جدت طرازی اور ندرتِ بیان کا حق ادا کرنا کسی کرامت سے کم نہیں۔ اسیر عابد کے کمالِ ہنر کی چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیے۔

نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
ترجمہ ؛
چتر چیکدا اے چتر کار کیہڑے کھیکھن گھنیا وچ تحریر سائیں
چولے کاغذی ساریاں صورتاں دے بے وسییاں بے تقصیر سائیں
۔۔۔
عرض کیجے جوہرِ اندیشہ کی گرمی کہاں
کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا
ترجمہ؛
فکراں دے سیکے دا جوہر کتھے عرض گزارو
دل کیتا سی جھل کدائیے آن بریتا بلیا
۔۔۔
بوئے گل، نالہِ دل، دُودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا
ترجمہ؛
خوشبو پھل دی، ہُوک دلے دی، دُھوں وی پرھیا دے دیوے دا
دُھکھیا جو تیری درگاہوں جاندا اُڈیا اُڈ یا ڈٹھا
۔۔۔
یہ مسائلِ تصوف یہ ترا بیان غالب تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
ترجمہ؛
ترے’ ہُو‘ دے ویروے واہ سائیںاتوں غالبا کٹک بیان تیرا
جے کر پین دی تینوں نہ مار ہوندی ساڈے لئی توں ولی اوتار ہوندا
ہر قدم دوریِ منزل ہے نمایاں مجھ سے
میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے
ترجمہ؛
پیر و پیر بھنبھوروں واٹاں جان پریریے میتھوں
کھری کراںتے چھوٹاں وٹدے تھل دے پینڈے میتھوں
اقبال کے اردو کلام کے مجموعوں میں بالِ جریل کو ممتاز مقام حاصل ہے۔یہ مجموعہ غزلوں، نظموں اور رباعیوں (قطعات) پر مشتمل ہے۔ اقبال ایک مربوط نظامِ فکر رکھنے والا شاعر ہے۔ اس کے اپنے مخصوص نظریات اور تصورات ہیں۔ ان کے اظہار کے لیے اس کی اپنی لفظیات،علامتیں، استعارے اور تلمیحات ہیں۔پنجابی ترجمے میں ان علامتوں اور استعاروں کے ایسے متبادلات تلاش کرنا جن میں اقبال کے خیالات کی بلندی کے ساتھ ساتھ اس کے اسلوب کی عظمت و جلالت بھی قائم رہے کوئی آسان کام نہیں۔
جس طرح غالب کی فکری گہرائی اور لطافتِ احساس کی تخلیقی ترجمانی کی خاطر اسیر عابد نے بعض الفاظ کو نئے مفاہیم میں استعمال کیا،بعض متروک الفاظ کے حیاتِ نَو سے آشنا کیااور بعض بالکل نئے الفاظ تراشے،بالِ جبریل کے ترجمے کے دوران بھی اسے ان سب مراحل سے گزرنا پڑا۔ بالِ جبریل کی غزلین اردو غزل کے ارتقا میں ایک انقلابی موڑ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اقبال سے پہلے طرحی مشاعروں کے رواج کے زیرِ اثر شعرا کی بیشتر غزلیں لخت لخت اشعار پر مشتمل ہوتی تھیں۔بہت کم غزلوں میں کسی زیریں وحدت کا سراغ ملتا تھا۔ پھر دیوان کی تکمیل میں غزلوں کو ردیفوں کے حوالے سے حروفِ تہجی کے تحت ترتیب دینے کی روایت بھی شاعر کو ااورد سے کام لینے پر مجبور کر دیتی تھی۔ جس سے نہ صرف تخلیقی عمل متاثر ہوتا تھا بلکہ خالص تخلیقی واردات کی نا موجودگی سے غزل میں احسا س و مزاج کی وحدت کے امکانات محدود ہو جاتے تھے۔ اس صورتِ حال میں اقبال کا تخلیقی کمال یہ بھی ہے کہ اس نے قدرتِ کلام کے فنیاتی مظاہرے کی بجائے غزل کو حقیقی تخلیقی واردات کا ترجمان بنا دیا۔ چناںچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال کے بعد غزل کے ممتاز شاعروں کے ہاں اشعار کے الگ الگ مفاہیم کے باوجود غزل کی ایک مجموعی فضا اور زیرین وحدت کا نمایاں احساس ہوتا ہے۔ فکر واحساس کی وحدت کے حوالے سے ترجمے میں اقبال کی زمینوں کی مناسبت سے بحروں، قافیوں اور ردیفوں کا مناسب انتخاب اقبال کی تخلیقی وارداتکو اپنے لہو مین اتارے بگیر کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ بال، جبریل کی شاعری کے ایسے منفرد خصائص کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اسیر عابد کے تراجم کی صداقت و وقعت اور معیار وکمال کے چند نمونے دیکھیے۔
میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں
غلغلہ ہائے الا ماں بنکدہِ صفات میں
ترجمہ ؛
ناد پھوکیا شوق برکاٹ میرے حجرے ذات ایس لامکان اندر
بوہڑ بوہڑ سائیاں بُو بُو کار پے گئی بت خانیاں زمی اسمان اندر
اس میں’ نوائے شوق‘ کی ترکیب کے لیے’’شوق برکاٹ‘‘ کا استعمال او’ر غلغلہ ہائے الاماں‘ کے مفہوم کی ’’ بُو بُو کار پَے گئی‘‘ کے الفاظ کے ذریعے ادائیگی سے محض ابلاغِ معنی کا کام نہیں لیا گیا بلکہ شعر میں موجود عظمت و شوکت اور لسانی و صوتی سحرکاری بھی پنجابی میں منتقل ہو گئی ہے۔
وہی میری کم نصیبی وہی تیری بے نیازی
مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمالِ نَے نوازی
ترجمہ ؛
اج وی لیکھاں وچ رسوائیاں بے پروا توں ازلاوں سائیاں
رانجھن پاس نہ مجھیاں آئیاں ونجھلی پھوکاں مار گوائیاں
اس میں رانجھن، مجھیاں اور ونجھلی سے جو تلمیحاتی فضا بنائی گئی ہے اس سے ترجمے میں اصل کی روح کے ساتھ ساتھ پنجابی شعری روایت کی تاثیر بھی سمٹ آئی ہے۔
باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
ترجمہ ؛
کیوں مینوں جنتوں دے دھکا ہجراں دے پینڈے پایا سئی
جگ ورتوں ملیاں واٹاں نیں ہن بیٹھ اڈیکاں لا سجناں
اس میں ’دے دھکا‘،’ پینڈے پایا‘، ’اڈیکاں لا‘ جیسے پنجابی محاوروں نے ترجمے کو بھر پور تاثر عطا کیا ہے۔
عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصّہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں
ترجمہ ؛
عشق ہوراں نے اکّے ہنبلی سارے پینڈے وڈھ مکائے
زمیاں اسماناں دا نئیں کوئی حد کنارا جاتا سی میں
اس میں جہاں ’اکّے ہنبلی سارے پینڈے وڈھ مکائے‘ کس پیرایہِ بیان اظہار کو توانا اور پُر زور بنا رہا ہے وہاں [ سمجھا تھا میں‘ کی ردیف کا ترجمہ ’ جاتا سی میں‘ پوری غزل کے مرکزی فکر و احساس کا احاطہ کر رہا ہے۔
سما سکت نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا
غلط تھا اے جنوں شاید مرا اندازہِ صحرا
ترجمہ ؛
نئیں فطرت دے کھل کھلارے جھل سمایا میرا
عشقا تینوں صحرا دا سی خبرے گھٹ اندازہ
اس میں’ سودا‘ کے لیے ’ جھل ‘ کا لفظ کتنا بر محل ہے اور ’ عشقا ‘ کے تخاطب نے کیسے ترجمے کو چار چاند لگا دیے ہیں۔
۔۔۔
تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
ترجمہ ؛
توں شہباز اُڈارو پنچھی تیرا بھرم اڈاری
تیرے اڈن لئی اسمان اچیرے ہور بتیرے
اس میں اقبال کی سلاست اور روانی کو کس خوبصورتی سے قائم و برقرار رکھا گیا ہے۔اور ردیف و قافیہ کی صوتی ہم آہنگی نے ترجمے کے حسن کو دوبالا کر دیا ہے۔
بے ذوق نہیں اگرچہ فطرت
جو اس سے نہ ہو سکا وہ تو کر
ترجمہ ؛
فطرت بھانویں ذوق سوادوں وانجی نئیں
توں اوہدے توں ودھ کے ہور کما ل کریں
اقبال کے شعر میں سہلِ ممتنع کا جو انداز ہے مترجم نے اسے جس خوبی سے پنجابی اظہار کا روپ دیا ہے وہ بجا طور پر لائقِ تحسین ہے۔
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
ترجمہ ؛
وج وجا سلطانی ہووے یاں جمہوری کھیڈاں
دین سیاست توں وکھ سمجھو چنگیزی تلواراں
اس میں ’جلالِ پادشاہی ‘ کو ’سلطانی وج وجا ‘ کہنا اور جمہوری تماشے کو ’ جمہوری کھیڈاں ‘ ٹھہرانا کتنا بر محل محسوس ہوتا ہے۔
اقبال کی از حد تخلیقی واردات نے جہاں غزل کی ہیئت کو قائم رکھتے ہوئے اس کے معنوی و لسانی مزاج کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے وہاں پابند نظم میں ہئیت اور پیٹرن کے متنوع تجربات سے اس صصنف کو امکانات کی انتہائوں تک پہنچا دیا ہے۔ بال، جبریل میں شامل’ مسجدِ قرطبہ‘ ، ’ذوق و شوق‘ اور ساقی نامہ اقبال کے فکر و فن کی معراج کا پتہ دیتی ہیں۔جہاں تک ’مسجدِ قرطبہ ‘ کا تعلق ہے یہ صرف اردو ادب ہی نہیں پورے عالمی ادب میں ایک تخلیقی معجزے کی حیثیت رکھتی ہے۔ چند اشعار کے ترجموں سے اندازہ کیجیے کہ اسیر عابد نے اقبال کے فکر و فن کی شان و عظمت کو کس کامیابی سے پنجابی کے قالب میں ڈھالا ہے۔
سلسلہِ روز و شب نقش گر ِ حادثات
سلسلہِ روز و شب اصلِ حیات و ممات
سلسلہِ روز و شب تارِ حریر ِ دو رنگ
جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات
سلسلہِ روز و شب سازِ ازل کی فغاں
جس سے دکھاتی ہے ذات زیر و بمِ ممکنات

ترجمہ ؛
اوندے جاندے شام سویرے خلقن نقش نگاراں
اوندے جاندے شام سویرے موت حیاتی کاراں
اوندے جاندے شام سویرے ریشم تند دو رنگی
جیہڑی تندوں ذات صفات پوشاکاں اُنے ہزاراں
اوندے جاندے شام سویرے ہاڑے ساز ازل دے
جس تھیں ذات پچھان کرائوندی کومل تیور تاراں
۔۔۔
تو ہے اگر کم عیار میں ہوں اگر کم عیار
موت ہے میری برات موت ہے تیری برات
ترجمہ ؛
توں وی جیکر کھوٹا نکلیں میں وی نکلاں کھوٹا
توں وی بیٹھا موت چتاریں میں وی موت چتاراں
۔۔۔
اے حرمِ قرطبہ عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود
ترجمہ ؛
قرطبہ اندر پاک مسیتے عشقوں تیری ہستی
عشق تمامی آپ دوامی نہ کوئی حال نہ ماضی
۔۔۔
شوق مری لَے میں ہے شوق مری نَے میں ہے
نغمہ ِ اللہ ہُو میرے رگ و پے میں ہے
ترجمہ ؛
شوق ہلارے شوق ای میری ونجھلی اندر کوکے
اللہ ہُو دی جگنی پوری پوری اندر کوکے
نرم دمِ گفتگو گرم دمِ جستجو
رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاکباز
ترجمہ ؛
ٹھنڈے تا گفتاراں ولوں تتے تائے کھوجاں
جنگاں ہون کہ رنگاں میلے پاک دلوں ونجارا
۔۔۔
دیکھیے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کیا گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا
ترجمہ ؛
ویکھو چھل سمندر دی کیہ لے کنڈھیاں ول آئوندی
اسماناں دی نیلی چھتری کیہڑے رنگ وٹائودی
حکمت و دانش اور فکر و فلسفے کے اظہار کے لیے مثنوی کی صنف کے استعمال کی فارسی مین تو بڑی جاندار روایت موجود ہے مگر اردو میں مثنوی کوعام طور پر عشق و عاشقی کی داستانوں کے بیان کے لیے ہی برتا گیا ہے۔ اقبال نے اپنے افکار کے اظہار کے لیے اس صنف کو جس خوبی اور کامیابی سے استعمال کیا ہے ’’ساقی نامہ‘‘ اس کی شاندار مثال ہے۔ اس مین ندی کے بہائو کی مختلف صورتوں کو جس جامعیت کے ساتھزندگی اور وقت کی علامت بنایا گیا ہے وہ اقبال جیسے عظیم شاعر ہی کا حصہ ہے۔ اسیر عابد نے اس کے ترجمے میں مثنوی کی پنجابی شعری روایت سے یقیناًاکتسابِ فیض کیا ہو گامگر اس نے خیال کے ساتھ ساتھ اقبال کے اشعار کے صوتی حسن کو جس ہنر مندی سے قائم و برقرار رکھا ہے اس پر پڑھنے والے کے دل سے بے ساختہ واہ وا اور سبحان اللہ کی صدائیں نکلتی ہیں۔
وہ جوئے کہستاں اچکتی ہوئی اٹکتی لچکتی سرکتی ہوئی
اچھلتی پھسلتی سنبھلتی ہوئی بڑے پیچ کھا کر نکلتی ہوئی
ترجمہ ؛
ویکھو ندی پہاڑوں لہندی شُوکے ٹر دی آوے
اَڑ دی لڑ دی کھیندی بیھندی رُُڑدی بُھڑدی آوے
ٹپدی نچڈی روڑھے پیندی گجدی وجدی آوے
کنّے وِنگ تِڑنگ ولاویں کھاندی بھجدی آوے
اقبال نے دنیا کے تبدیل ہو جانے اورجدید انسانی معاشرے میں سیاست و معیشت کے حوالے سے انقلابی تحریکوں کی طرفجس خوبصورتی سے اشارے کیے ہیں اسیر عابد نے ترجمے میں ہر اعتبار سے ان کے جوش و خروشاور اثر آفرینی کا حق ادا کر دیا ہے۔
زمانے کے انداز بدلے گئے
نیا راگ ہے ساز بدلے گئے
پرانی سیاست گری خوار ہے
زمین میر و سلطاں سے بیزار ہے
گیا دورِ سرمایہ داری گیا
تماشا دکھا کر مداری گیا
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
ترجمہ ؛
نویاں رُتاں نویاں ریتاں ویلے چال وٹئی
دھرتی شاہواں تے سرداراں توں بیزار بتیری
ٹُریا جے سرمایہ داری دا بیوپاری ٹریا
کرتب گھڑی وکھا کے جیویں ٹھگ مداری ٹریا
ڈونگھی نیندر سُتّے چینی اکھاں پٹن لگ پَے
پیر پہاڑ ہمالہ ولووں سَومے پُھٹن لگ پَے
جس طرح غالب کا اردو دیوان اور’’ بالِ جبریل ‘‘ فکر و فن کا انمول خزانہ ہیں اسی طرح اسیر عابد کے قلم سے ڈھلے ان دونوں کتابوں کے پنجابی روپ بھی تخلیقی ترجمہ نگاری کے شاندار مرقعے ہیں۔ ان تراجم سے جہاں پنجابی شاعری مزید فکری وسعتوں اور لسانی گیرائی و گہرائی سے آشنا ہو گی وہاں اس میں شعرتی جمالیات کی نئی جہتیں بھی نمو پائیں۔یوں پنجابی شعری روایت جوں جوں آگے بڑھے گی ان تراجم کے اثرات گہرے ہوتے چلے جائیں گے اور کچھ عجب نہیںکہ آنے والے زمانے میں ان کو پنجابی کلاسیک کا درجہ حاصل ہو جائے۔

Related posts

Leave a Comment